اردو

دو مختلف تصورات کو ایک مت سمجھیں

حمل چاہے بغیر ہونے والا

جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے لاحق ہونے سے بچا ؤ

ان دونوں کے درمیان ابہام پیدا مت ہونے دیں

ایک عورت صرف اس صورت میں حاملہ ہوتی ہے جب انزال کے وقت مر د کا مادہ منویہ اندام نہانی میں داخل ہوتا ہے ،اور منی میں شامل سپرم کے خلیئے یوٹرس کی طرف بنا کسی رکاوٹ کے جا سکیں۔

جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریا ں ایک شخص کو اس وقت ہوتی ہیں جب مباشرت کے دوران جسمانی رطوبتوں جیسا کہ مادہ منویہ ، اندام نہانی کا مادہ منویہ، خون اور شاذ و نادر لعاب دہن کے ذریعے ایسے خوردبینی جرثوموں کا جو ان بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، دو اشخاص میں تبادلہ ہوتا ہے ۔

حمل کو مختلف طریقوں کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے ۔

ایک مانع حمل یا پیدائش روکنے کی گولی ایک ادویاتی منشیات ہے جو کہ ، عورت کے تولید ی خلیے جسے مرد کا سپرم(جو کہ مرد کا تولیدی خلیہ ہے) زرخیز کرتا ہے،انڈے کے بننے اور خارج ہونے کے عمل کو روکتی ہے ۔گولی بہترین مانع حمل طریقہ ہے ۔لیکن یہ ممکنہ خطرات کی محتاط تشخیص کے بعد کسی ڈاکٹر سے ہی تجویز کردہ ہونی چاہیئے۔

اپنے ڈاکٹر ، ماہر امراض نسواں یا خدمات مہیا کرنے والے مقامی محکمہ صحت سے پوچھنا اپنے ذہن میں رکھیں۔ باقاعدہ نسخہ کے بغیر یا صرف اپنے دوست کے مشورہ پر گولی کا استعمال ہرگز نہ کریں۔ بچہ دانی میں انڈہ بننے کے عمل کی گنتی کے طریقہ کار پر کبھی انحصار مت کریں، یہ طریقہ کار ماہواری کے دوران جبکہ عورت کے حاملہ ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ایک عورت کا جسم رحم میں انڈہ آنے کا دورانیہ باقاعدہ اوقات کار کے مطابق نہیں ہوتا۔ دو ماہواریوں کے درمیان 28 دن کا دورانہ صرف ایک درمیانی عرصہ ہے ۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں میں ماہواری کا دورانیہ کم یا زیادہ ہوسکتا ہے ۔ حتیٰ کہ ماہواری کے دوران بھی پارٹنر ز مباشرت کرسکتے ہیں جو کہ ان چاہے حمل کے طور پر منتج ہوسکتی ہے کیونکہ ، ہو سکتا ہے کہ انڈہ بننے کا عمل پہلے ہی ہوچکا ہو اور سپرم کے خلیئے کچھ دن تک عورت کے جنسی اعضا ء میں زندہ رہیں۔

آپ کو کبھی بھی انخلاء یا باہر نکالنے کے طریقہ کار پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے جو کہ انزال سے قبل عضوء تناسل کے اندام نہانی سے نکال لینے کا نام ہے ۔ اس عمل کو دخل در اجماع بھی کہتے ہیں۔ اسے ایک محفوظ طریقہ کار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ سپرم کے جرثومے قطروں یا انزال سے قبل عضوء تناسل سے نکلنے والے شفاف مائع میں بھی ہو سکتے ہیں۔ حمل انزال سے قبل درست لمحے میں عضوء تناسل کے اندام نہانی سے نکالنے میں ناکام ہونے پر بھی ہو سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ مرد اگر انخلا (عضوء تناسل کا اندام نہانی سے باہر نکالنا) میں کامیاب ہوجائے تو بھی اسے انزال کو روکنا ہوگا جس سے وہ جنسی تسکین حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوگا اور سے مادہ منویہ کے اخراج کے جسمانی عمل کو روکنا ہوگا۔ جو کہ بعد میں پروسٹیٹ کی جلن اور ناقص حس آنے کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ پروسٹیٹ ایک حساس غدود ہے جسے جلن اور بعد کی پییچیدگیوں سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں ؟

لعاب دہن کے علاوہ باقی تمام جسمانی رطوبتوں کے ایک شخص سے دوسرے شخص کومباشرت کے دوران منتقل ہونے کو صرف کنڈوم کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے ۔

وائرس، بیکٹیریا یا دیگر خوردبینی جانداروں والی جسمانی رطوبتوں کے گزرنے میں کنڈوم ایک رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ گزرنے میں رکاوٹ بن کر یہ انفیکشن سے بچاتا ہے ۔

جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں اور ان چاہے حمل سے بچنے کا واحد قابل اعتبار طریقہ کنڈوم کا استعمال ہے ۔

پیدائش روکنے کی گولی یا مانع حمل طریقے آپ کو جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے نہیں بچاتے صرف کنڈوم کا استعمال آپ کو انفیکشن سے بچانے کے لئے حفاظتی رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ ان دونوں حقائق کو کبھی مت الجھائیں۔

کیا صرف ایچ آئی وی ہی جان لیوا خطرہ ہے یا دیگر ایسے خطرات پر بھی ہمیں نظر رکھنی چاہیئے۔؟

انسانی قوت مدافعت کو ختم کرنے والا وائرس(ایچ آئی وی) ایڈز کا باعث بنتا ہے جو کہ ایک بری اور جان لیوا بیماری ہے ۔ اٹلی میں ، 2015 میں رجسٹر ہونے والے ایچ آئی وی انفیکشن کے نئے کیسز کی تعداد 3444 ہے۔

ٹیکنالوجی اور ریسرچ میں ہونے والی حالیہ ترقی کا شکریہ کہ اب ایچ آئی وی انفیکشن کا علاج ایسی دواوں سے ممکن ہے جو انفیکشن کے بیماری کی شکل میں بڑھنے کو روکتی ہے ۔ یہ علاج وائرس کو مکمل طور ہر ختم نہیں کرتے ۔ وہ لوگ جن کو وائرس لگ چکا ہے (ایچ آئی وی سیروپوزیٹو) انہیں ساری زندگی ایچ آئی وی کے خلاف علاج سے گزرنا پڑتا ہے جس میں وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی ادویات کے مرکب سے علاج کیا جاتا ہے ۔ انفیکشن پھیلنے سے روکنے اور مزید بیماریوں کے پھیلاو سے تحفظ کے لئے وائرس کے پھیلنے کے خلاف اقدامات کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔مباشرت کےصرف وہ طریقےمحفوظ جنسی عمل سمجھے جاتے ہیں جن میں جسمانی رطوبتوں(خاص طور ہر مادہ منویہ اور خون) کا تبادلہ نہیں ہونے دیا جاتا، اور ایسا صرف کنڈوم کے استعمال سے ممکن ہے ۔ ایچ آئی وی انفیکشن سے بچاؤ اور اس کا پھیلنا آسان ہے ؛ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہمیشہ کنڈوم کااستعمال کریں اور درست استعمال کریں۔

خون کے ٹیسٹ سے ہمیں جنسی طور پر منتقل ہونے والی دیگر بیماریوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے ۔ صرف اس بات کا علم ہونے سے کہ ہمیں کوئی انفیکشن ہے ، ہمیں صحت کو درپیش خطرات سے بچنےاور بیماریوں کے مناسب علاج کا موقع مل جاتا ہے۔

دیگر بیماریاں جیسا کہ آتشک، وائرل ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی بھی جنسی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔پہلے سے کیا گیا تشخیصی ٹیسٹ ان کے مزید نقصانات سے بچانے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

نوجوان ہیپاٹائٹس بی اور انسانی پیپلوما وائرس سے محفوظ ہیں کیونکہ ان کی ویکسینیشن ہوتی ہے۔ اس بات کی تسلی کریں کہ کیا آپ نے پہلے سے ویکسین لگوائی ہے ، اور اگر نہیں لگوائی تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے ڈاکٹر یا اپنے مقامی محکمہ صحت کی خدمات حاصل کریں تاکہ اس کے لئے باقائدہ اقدامات کیئے جا سکیں۔

کیا میں (کنڈوم) کو ٹھیک سے پہنتا ہوں؟

درج ذیل تدابیر کے ذریعے آپ کنڈوم کو درست طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ giusto/-modo-nel-sesso/gioca/indossarlo-sul-pi%C3%B9-di-http://www.durex.it/scopri

کبھی بھی ایک ہی کنڈوم کو دوبار استعمال مت کریں۔ استعمال شدہ کنڈوم کی بیرونی سطح اس شخص کی جسمانی رطوبتوں سے آلودہ ہوجاتی ہے جس میں اسے داخل کیا گیا ہو، اس لئے عضو تناسل کے باہر نکالنے کے بعد ایسے کنڈوم کو ضائع کردینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کنڈوم اس شخص کو بچاتا ہے جو اسے پہنتا ہے اور اسے بھی محفوظ کرتا ہے جس میں اسے پہن کر دخول کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی جنسی سرگرمیوں میں مختلف جنسی پارٹنر شریک ہیں تو ہر نئے پارٹنر کے لئے الگ کنڈوم استعمال کریں۔

خود کو جنسی فلموں اور میڈیا کے دکھائے گئے مناظر سے متاثر مت ہونے دیں۔ ہر شخص کی اپنی منفرد جسمانی ساخت ہوتی ہے اور جنسی تسکین کو سینٹی میٹرز میں نہیں ناپا جا سکتا۔

عام طور پر کنڈوم کا درمیانہ سائز قریب قریب سب کو پورا آجاتا ہے ۔ اگر آپ کا کنڈوم بار بار اتر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کنڈوم کا قطر آپ کے عضو تناسل کی موٹائی سے کافی بڑا ہے۔، جس آپ اور آپ کے پارٹنر کو جنسی عمل کے دوران مکمل طور پر محفوظ نہ ہونے کا خطرہ دوچار ہے۔ ہر کنڈوم کے ڈبے پر اس کا سائز بتایا گیا ہوتا ہے، اس لئے آپ ایسا کنڈوم استعمال کریں جو آپ کو پورا آتا ہو۔

اگر آپ کو محسوس ہو کہ کنڈوم آپ کے سائز سے کافی چھوٹا ہے اور اسے پہننے میں آپ کو مشکل ہوتی ہے تو بھی کنڈوم تبدیل کردیں۔ اپنے ناخنوں سے کنڈوم کو پھٹنے یا کٹنے سے بچائیں اور نہ ہی اسے اتنا زیادہ کھینچیں کہ مباشرت کے دوران کنڈوم پھٹنے سے آپ غیر محفوظ جنسی عمل کا شکار ہوجائیں۔

قدرتی ربڑ کے بنے ہوئے کنڈوم سے کچھ لوگوں کو الرجی ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں بہترین حل یہ ہے کہ آپ ایسے کنڈوم استعمال کریں جو قدرتی ربڑ کے بنے ہوئے نہیں (نان لیٹکس کنڈوم) جو کہ قدرتی ربڑ کی بجائے دوسرے میٹیریل سے بنائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ڈیوریکس لیٹکس فری کنڈوم ۔

پیار کرنا اور احترام سے پیار کرنا

اپنی ساتھی سے پیار کرنے کا راز اسے اور اس کے جسم کو عزت دینے میں ہے۔ ہمیں جنسی فلموں اور میڈیا میں دکھائے گئے جنسی مناظر کی نقل نہیں کرنی چاہیئے۔

ہمیں یہ فرض نہیں کرلینا چاہئے کہ ہماری اور ہمارے پارٹنر کی جنسی تسکین خود بخود ایک جیسی ہوگی۔ ایک مرد کو لڑکی کی طرف سے دئے گئے اشاروں کو سمجھنا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے کہ کہیں وہ اسے تکلیف تو نہیں دے رہا یا کچھ غلط تو نہیں کر رہا۔ پیار کرنا انا کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ دونوںپارٹنرز کی باہمی خوشی کا نام ہے ۔

ہمیں خود کو اور اپنے پارٹنر کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمیشہ کا کنڈوم استعمال ذہن میں رکھنا چاہئے(محفوظ جنسی عمل)۔

اگر زیادہ رگڑ یا اعضاء کے آرام دہ حالت میں نہ ہونے یا اندام نہانی کے خشک رہ جانے کی وجہ سے دخول کا عمل مشکل لگے تو کسی سیال مادہ یا لبریکنٹ کا استعمال کرلینا چاہئے۔ ہمیں کبھی بھی جسمانی کریم لوشن وغیرہ کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ صرف بیرونی استعمال کے لئے بنے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان میں ایسے مائع اجزا ہوں جو کہ اندرونی دیواروں کے لئے نقصان دہ ہوں، ایسی کریمیں کنڈوم کو بھی آسانی سے پھاڑ دیتی ہیں۔جبکہ دوسر ی طرف لبریکنٹ کو اندرونی استعمال کے لئے باقاعدہ کلینک میں ٹیسٹ کیا گیا ہے، اس کا سیال مادہ کنڈوم کی قدرتی ربڑ کو نقصان نہیں دیتا اور رگڑ میں کمی کے زریعے کنڈوم کے پھٹنے کے خطرے کو کم کرکے کنڈوم کو محفوظ بناتا ہے ۔

اگر آپ مقعد کے راستے یا پیچھے سے جنسی عمل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اور اپنے پارٹنر کی رضامندی سے اور زیادہ حفاظتی اقدامات کیجیے۔ سفنکٹر جو کہ مقعد کے آغاز پر ہوتی ہے اس کی رگڑ اور درد، اس کے ساتھ کنڈوم کی مقعد کی اندرونی دیواروں پر رگڑ سے بچانے کے لئے بھی لبریکنٹ کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے ۔ اپنے ذہن میں رکھئے کہ مقعد کے راستے جنسی عمل صرف پارٹنرز کی باہمی مرضی سے ہی کرنا چاہیئے اور اس معاملے میں کبھی بھی زبردستی نہیں کرنی چاہئے کہ ایسا کرنے سے ان چاہے فعل اور تشدد کا راستہ کھل سکتا ہے ۔ صرف اس صورت میں جب دونوں پارٹنر راضی ہوں ، اگر ماحول آرام دہ ہے، اور دونوں کو ایک دوسرے پرپہلے سے اعتمادہے تب صرف ایسی صورت میں ہی مقعد کے راستے جنسی عمل قابل قبول ہے ۔

ان چاہے حمل اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو آپس میں مت الجھائیں۔ مقعد کے راستے جنسی عمل ہمیشہ کنڈوم کے ذریعہ کرنا چاہیے کیونکہ اس عمل کے دوران خون کے قطروں کا تبادلہ عام ہے ، اس لئے وائرس اور دیگر بیماریاں پھیلانے والے مادوں کا انتقال آسان ہوجاتا ہے ۔ انزال کے بعد مقعد میں رہ جانے والے سپرم سے جنسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ماہواری کے ساتھ ناپاک ہونے کی منفی سوچ جوڑ دی گئی ہے ، جس سے عورت ایک نارمل اور ضروری حیاتیاتی اور جسمانی عمل کے نتیجے میں شرمندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ وہ عورتیں جنہوں نے ماہواری اور ماہواری کے خون سے جڑی نفرت سے جان چھڑا لی ہے وہ اپنی خاندانی، سماجی اور جنسی زندگی میں ماہوار ی کی وجہ سے تفریق کا شکار نہیں ہیں۔ بہرحال ہر معاشرے میں ایسانہیں ہوا۔بالکل دیگر ہارمون کی تبدیلیاں جن سے وہ گزرتی ہے اسی طرح

ماہواری کے دوران ایک عورت جنسی خواہشوں میں اضافے کے اشارے ظاہر کرسکتی ہے۔ماہواری کے دوران جنسی عمل کرنے سے عورت کو کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔ جب وہ اور اس کا پارٹنر جنسی عمل کرنے میں خوش ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسا نہ کریں۔ کنڈوم کے درست استعمال اور محفوظ جنسی عمل کو ہمیشہ فوقیت دی جائے۔ احتیاطی تدبیر کے طور پر جنسی عمل کے دوران ایک تولیہ رکھ لیں جس میں عضلات کے پھیلنے سکڑنے سے جنسی عمل میں خارج ہونے والی زائد رطوبتیں جذب ہوسکیں۔

دخول (اندر داخل کرنے) کی بجائے منہ کے زریعے کئے جانے والے جنسی عمل میں جنسی بیماریوں کے خطرات کم ہیں۔ بہرحال اگر منی کا مادہ منہ کی اندرونی دیواروں کو چھو لیتا ہے تو یہ جنسی بیماریوں کے لئے راستہ بنا سکتا ہے ۔ منہ کے راستے جنسی عمل کرنے سے اگر انزال نہ بھی ہو تو سوزاک کے ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ جس بیکٹیریا سے یہ بیماری ہوتی ہے وہ اندام نہانی یا عضو تناسل کے مادے میں موجود ہوتا ہے اور صرف اسے منہ میں ڈالنے سے یہ بیماری پھیل سکتی ہے۔

کیا سپرم کا ذائقہ ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے؟

سپرم کا ذائقہ برا ہوسکتا ہے اور شاید یہی آپ کے پارٹنر کے انکار کی وجہ ہو۔ اس احساس سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آ پ کنڈوم استعمال کریں، خاص طور پر فلیور والے کنڈوم جن میں ربڑ کے ذائقے کو ختم کرنے کے لئے مختلف ذائقے ہوتے ہیں۔

مادہ منویہ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ (ا سے 2٪) سپرم پر مشتمل ہوتا ہے ۔ باقی کا حصہ پانی کا بنا ہوا ہوتا ہے جس میں مختلف مادوں کا محلول ہوتا ہے ۔ مادہ منویہ کا مخصوص ذائقہ اور بو خاص طور پر سپرمین اور سپرمیڈائین کی وجہ سے ہوتا ہے۔، جن کا سب سے اہم کام سپرم کی انڈے کو زرخیز کرنے کی صلاحیت کا برقرار رکھنا ہوتا ہے ۔ کسی بھی دیگر جسمانی رطوبت کی طرح مادہ منویہ کا ذائقہ اور بوہر شخص میں اسکی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے مختلف ہوگی۔ عمر، جینیاتی خصوصیات اورمادہ منویہ کے انزال ہونے کی تعداد کی وجہ سےمادہ منویہ کی نوعیت ، مقدار، گاڑھا پن اور حجم میں فرق ہوتا ہے۔

ہم اکثر خود سے پوچھتے ہیں کہ کیا مادہ منویہ کے ذائقے کو بہتر کیا جا سکتا ہے؟

ہمیں مادہ منویہ کے رنگ، بو،ذائقہ، طبعی خصوصیات یا کسی اور پہلو میں تبدیلی پر ہمیشہ توجہ دینی چاہئے۔ خاص طور پر اگر مادہ منویہ میں پیلاپن پیدا ہورہا ہو تو ہمیں فوری طور پر اپنے ڈاکٹر کو دکھانا چاہئےتاکہ جنسی اعضا کی جلن کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔

انتہائی نمکین ذائقے کو باقاعدگی سے پانی پی کر ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ اچھی زندگی گزارنے کے اصول جیسا کہ بہت سارا پانی پینا، پھلوں پرمشتمل خوراک کھانا، بہت زیادہ چکنائی اور پروٹین والی خوراک سے دور رہنے سے ہماری جسمانی رطوبتوں کی بو اور ذائقے میں اچھی خاصی بہتری آجاتی ہے خاص طور پر ہمارے پسینے میں اور منی میں بھی کچھ تبدیلی آتی ہے۔ صحت مند طرزز ندگی، متوازن خوراک اور باقائدہ جنسی سرگرمی سے ہمیں

خوشی ملتی ہے اور ہم ارد گرد کے لوگوں سے خوشگوار رویئے سے پیش آتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں سے جن کے ساتھ ہمارے قربت کے تعلقات ہیں۔

بدصورت ان چاہے بال

رائج کلچر اور اشتہارات ہمیں ایک ایسے جسم کی خواہش پر ابھارتے ہیں جس پر جسمانی بال نہ ہوں۔

جسمانی بال ایک مخصوص جسمانی فعل سرانجام دیتے ہیں اور ہم مکمل طور پر ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے ۔پورے جسم میں ان کا پھیلاؤ جنسی ہارمون اور مخصوص جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کے جسم پر بہت کم بال ہوتے ہیں جن کو وہ مختلف بال صفا طریقوں سے ختم کرتی ہیں جبکہ مردوں کی تعداد میں بھی حالیہ اضافہ ہوا ہے جنہوں نے اس عادت کو اپنایا ہے۔ بال صفا عمل کو احتیاط سے کروانا چاہئے تاکہ جلد کو نقصان نہ پہنچے۔بال صفا مصنوعات کو ڈبے پر دی گئی ہدایات کے مطابق احتیاط سے لگانا چاہئے چونکہ بلیڈ اور ریزر جلد پر جلن یا انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ان کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے۔

لیزر صرف کالے بالوں پر اثر کرتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف میلانن جو کہ بالوں کو کالا رکھنے کا مادہ ہے ، پر اثر کرتی ہے ۔ بہر حال لیزر کے غلط استعمال سے جلد کا رنگ خراب ہوسکتا ہے کیونکہ یہ جلد کے اندر موجود میلانن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ دیگر صورتوں میں ماہر امراض جلد بال صفا کا دوسرا طریقہ بھی تجویز کر سکتے ہیں جس میں الیکٹروکوگولیشن کے زریعے بالوں کی جڑ کو جلایاجاتا ہے ، یہ ایک دیرپا اور مہنگا طریقہ ہے۔

ہم نے جلد کے بارے میں بات کی، لیکن اگر بال جنسی اعضا ء کے قریب ہوں تو ہمیں بال صفا عمل کرتے ہوئے اور زیادہ احتیاط کرنا چاہئے ۔ جلد کی بال صفا مصنوعات جیسا کہ کریم اور پٹیاں کبھی بھی جنسی اعضاء کی رطوبتوں کے ساتھ نہ ملیں۔ مزید یہ کہ ایک ناتجربہ کار ہاتھ سے بلیڈ کے کٹ لگ سکتے ہیں۔

ایک نوجوان لڑکے یا لڑکی کا جسم بالوں کی مکمل ترتیب اور پھیلاؤ کو ظاہر نہیں کرتا کیونکہ وہ ابھی ہارمونز کے اس توازن پر نہیں پہنچا ہوتا۔ اپنے ہی جسم کو ماننے اور اچھا سمجھنے کی پریشانی میں جلد بازی میں بال صفا طریقے اختیار کرنا بے سود اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے مسائل وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہوجاتے ہیں جب جسم بلوغت کی تبدیلیوں سے گزرتا ہے اور ایک بہتر توازن میں آجاتا ہے۔